قم،معروف عالم دین علامہ قاضی نیاز حسین نقویؒ کی یاد میں تقریب؛

جامعۃ المصطفیٰ کی تشکیل حوزہ علمیہ کے لئے قابل فخر ہے، آیت اللہ اعرافی

سربراہ حوزہ علمیہ ایران نے کہا کہ حوزہ نے ان 100 سالوں کے عرصے میں بالخصوص انقلاب اسلامی ایران کے بعد بہت سی ترقی کی منازل طے کئے ہیں جن میں سے ایک جامعۃ المصطفی العالمیہ کی تشکیل ہے جس کی شاخیں پوری دنیا میں ایک نورانی و زنجیر وار سلسلہ کی مانند پھیلی ہوئی ہیں اور دنیا کے کونے کونے تک معارف الہی و نبوی کو پہچانے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔

حوزہ علمیہ قم اور وفاق المدارس الشیعہ پاکستان کے تحت علامہ قاضی نیاز حسین نقوی رح کی یاد میں ایک عظیم الشان تقریب منعقد ہوئی جس میں ایرانی دینی مدارس کے سربراہ آیت اللہ اعرافی، وفاق المدارس الشیعہ پاکستان کے سربراہ آیت اللہ حافظ سید ریاض حسین نجفی، مراجع عظام اور حوزہ علمیہ قم کے جید اساتذہ اور طلاب نے کثیر تعداد میں شرکت کی۔

تقریب سے خطاب میں آیت اللہ علی رضا اعرافی نے خطاب کے دوران علماء کو مکتب امام جعفریہ کی رونق قرار دیتے ہوئے کہا کہ امام جعفر صادق علیہ السلام کو اپنے زمانہ میں جن شرائط کا سامنا تھا وہ باعث بنا کہ کہ امام (ع) نے تمام اماموں کی نسبت ایک سوم میراث چھوڑی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ تقریبا 60 ہزار احادیث امامین صادقین علیهما السلام سے نقل ہوئی ہیں کہ جو پیغمبر اکرم(ص) کی آدھی میراث ہے، کیونکہ ان کے زمانے میں ایسے شرائط پیش آئے جس کی بنا پر ان دو اماموں نے نہایت ہی عظمت کے ساتھ علم کے خزانوں کو شکوفا کیا۔

حوزات علمیہ کے سربراہ کا کہنا تھا کہ امام صادق علیہ السلام کی طویل عمر، ان کی 30 سالہ امامت، معاشرے کے حالات سے آپ کی واقفیت وہ اہم عوامل ہیں جن کی وجہ سے آپ علیہ السلام سے 40 ہزار سے زیادہ احادیث اور 2 ہزار سے زائد راوی موجود ہیں۔ امام صادق علیہ السلام نے ان شرائط کو شیعہ معاشرے کی تعمیر کے لیے استعمال کیا ہے۔انہوں نے کہا کہ امام باقر و امام صادق علیہما السلام کی خصوصیات میں سے ایک یہ ہے کہ آپ نے روایتوں، تصانیف اور معیاری شاگردوں کی ایک بڑی تعداد چھوڑی ہے۔ اس کے علاوہ ہمارے اخلاق اور فقہ کی تعلیمات امام صادق علیہ السلام کے بیان کردہ اصولوں پر مبنی ہیں۔ اگر شیعہ کی تمام تعلیمات کو اٹھا لیا جائے اور صرف صادقین کی تعلیمات کو باقی رہنے دیا جائے تو 70 فیصد سے زیادہ شیعہ تعلیمات ان دونوں اماموں سے باقی بچیں گی۔

آیت اللہ اعرافی کا کہنا تھا کہ امام صادق علیه السلام نے اپنے معاشرے کی ضروریات کی تشخیص دے کر بہت سے معارف الہی کو بیان کیا اور حکمت کے دروازوں کو کھولا۔

ان کا کہنا تھا کہ جو توحید امام صادق علیہ السلام نے بیان کی ہے آج کے بڑے بڑے فلسفی اور کلامی علماء اس کو درک کرنے سے عاجز ہیں۔ امام صادق ع کی روایات میں اسلامی سیاسی اور معاشرتی نظام کے نمونہ موجود ہیں اور ہم اس بیکران دریا سے متصل ہونے پر فخر کرتے ہیں۔حوزات علمیہ کے سربراہ نے امام صادق علیہ السلام کے معارف کا بیان اور اسے لوگوں تک پہنچانے کو حوزات علمیہ کی ایک اہم ذمہ داری قرار دیتے ہوئے کہا کہ عصر حاضر کے حوزات علمیہ کہاں اور امام صادق کا علمی انوار کہاں۔ ہم ابھی اس سلسلہ کے نکتہ آغاز پر کھڑے ہیں۔ ہمیں چائیے کہ دین ناب کو اہل بیت کی تعلیمات سے حاصل کر کے معاشرے میں اس کی تبلیغ اور ترویج کریں کہ یہی ہماری اہم ذمہ داری ہے۔ آج حوزات علمیہ کی ذمہ داری بہت سخت ہے کہ وہ تاریخی واقعات کے نشیب و فراز کے جواب دہ ہوں۔

ان کا کہنا تھا کہ حوزہ نے ان 100 سالوں کے عرصے میں بالخصوص انقلاب اسلامی ایران کے بعد بہت سی ترقی کی منازل طے کئے ہیں جن میں سے ایک جامعۃ المصطفی العالمیہ کی تشکیل ہے جس کی شاخیں پوری دنیا میں ایک نورانی و زنجیر وار سلسلہ کی مانند پھیلی ہوئی ہیں اور دنیا کے کونے کونے تک معارف الہی و نبوی کو پہچانے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔آیت الله اعرافی کا کہنا تھا کہ بین الاقوامی علماء کی تکریم میں اس طرح کی مجالس کا انعقاد اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ ہمارا حوزہ ملکی سرحدوں سے نکل کر بین الاقوامی سطح تک پہنچ چکا ہے اور مزید وسیع تر ہوتا جا رہا ہے۔ آج ہم اس عظیم فداکار عالم حقیقی کے غم میں سوگوار ہیں کہ جس نے اپنی ساری عمر معارف اہل بیت علیہم السلام کو لوگوں تک پہنچانے میں صرف کی۔ مرحوم قاضی حسین نقوی جیسے علماء کے راستے کو پہچاننے کیلئے اور اس پر گامزن ہونے کیلئے فداکار اور محنت کش سپاہیوں کی ضرورت ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ میرے لئے یہ اعزاز کی بات ہے کہ تقریباً 30 سال سے شیعہ علماء سے رابطہ میں ہوں اور ان سب میں، پاکستان کی عظمت و بزرگی کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔ ان کا مذہبی جوش و جذبہ امت اسلامیہ کی تحریک اور عالم اسلام کے بہتر مستقبل کیلئے بہت اہمیت رکھتا ہے۔حوزات علمیہ کے سربراہ کا کہنا تھا کہ پاکستان کی سٹریٹجک اور انتہائی مؤثر پوزیشن کے ادراک کیلئے پاکستان میں مزید اہم اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں اس طرح کے ہزاروں علماء کی ضرورت ہے کہ جو پاکستان کے خطے خطے میں پھیل کر مکتب جعفریہ کی ترویج کریں۔ ہمیں فقہ اور اصول وغیرہ میں متخصص کی تربیت کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ مستقبل میں پاکستان کا شیعہ خطہ نہایت مؤثر اور بھرپور وزن کا حامل ہوگا اور اس کیلث ضروری ہے کہ تمام شعبوں میں اس ملک کے علماء موجود ہوں۔ انہوں نے آخر میں کہا کہ سید قاضی نیاز حسین ایران اور پاکستان کے درمیان باہمی رابطہ کا بہترین نمونہ تھے۔ وہ ایک ایسی شخصیت تھے گویا انہوں نے ایران کے اسلامی نظام میں زندگی کا بڑا عرصہ گزارا ہو۔

وفاق المدارس الشیعہ پاکستان کے سربراہ آیت اللہ حافظ سید ریاض حسین نقوی نے نیز مرحوم سید قاضی نیاز حسین کی پاکستان میں معارف دینی کی تبیین و ترویج میں انجام دی گئی خدمات کو سراہتے ہوئے کہا کہ وہ ایک ممتاز، ذہین اور باہوش شاگردوں میں سے ایک تھے۔ انہوں نے پاکستان میں مختلف دینی مدارس جیسے جامعہ رضوی کی بنیاد رکھی۔

حوزات علمیہ ایران کے مواصلاتی مرکز کے سربراہ حجت الاسلام والمسلمین سید مفید حسینی کوہساری نے اس پروگرام کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ یہ مجلس ایک ایسے شخص کی تکریم میں منعقد کی گئی ہے کہ جو جمهوری اسلامی ایران و پاکستان میں نہایت مؤثر تھی۔