34ویں تہران انٹرنیشنل بک فیئر کا معائنہ کرنے کے بعد رہبر انقلاب اسلامی کی میڈیا سے گفتگو
آئی آر آئی بی نامہ نگار: سلام عرض ہے۔ مزاج گرامی
آپ اقتصادی مسائل کو غیر معمولی اہمیت دیتے ہیں۔ اس سلسلے میں ایک عملی اقدام کے طور پر آپ گزشتہ برسوں کی طرح اس سال بھی تہران بک فیئر میں تشریف لائے۔
اگر ممکن ہو تو یہ فرمائيں کہ ہماری ثقافت میں کتاب کا مقام کیا ہے؟ اور کتاب ثفافت کے ارتقا میں کیا مدد کر سکتی ہے؟
آیت اللہ العظمی خامنہ ای:
بسم اللہ الرحمن الرحیم
پہلی بات تو یہ کہ مجھے بڑی خوشی ہے کہ اس سال بھی اس کتب میلے میں آنے کی توفیق حاصل ہوئی۔ یہ کتب میلہ یعنی کتابوں کی نمائش جو ہر سال لگتی ہے، یہ ایک عظیم عوامی سیمینار ہے جس پر ثقافی پہلو غالب ہے اور یہ بہت خوشی کی بات ہے جو اس نمائش میں آنے کا شوق بڑھاتی ہے۔ پہلی بات تو یہاں آنے والوں کی بھیڑ ہے، جو نظر بھی آ رہی ہے اور مجھے جو اعداد و شمار دیئے گئے ہیں، ان سے بھی پتہ چلتا ہے کہ ان چند دنوں میں آنے والوں کی تعداد زیادہ تھی، بہت اچھی تھی۔ کتابوں کی خریداری بھی بہت اچھی تھی۔ پھر میں نے خود جو اسٹالوں کو دیکھا، چند اسٹالوں کو میں نے نزدیک سے دیکھا ہے، احساس ہوتا ہے کہ کتابوں کی طباعت، بعض نا مساعد حالات کے باوجود پیشرفت کر رہی ہے۔ نامساعد حالات جو میں کہہ رہا ہوں، اس میں سب سے اہم کاغذ کی گرانی ہے اور بعض اوقات کاغذ اچھا نہیں ہوتا ہے۔
آج وزیر (ثقافت و اسلامی ہدایت) محترم نے مجھے اطلاع دی ہے کہ اچھے کاغذ کے پروڈکشن کے سلسلے میں اچھا کام شروع کیا ہے۔ میں نے چند سال قبل اس بات کی تاکید کی تھی، لیکن اس پر کام شروع نہیں کیا گیا، اب الحمد للہ شروع کر دیا ہے۔ امید ہے کہ اس سے مدد ملے گی۔ واقعی ان قیمتوں پر کتابوں کو خریدنا بہت مشکل ہے، قیمتیں گریں گی اور کاغذ سستا ہونے اور ملک کے اندر تیار ہونے والے اچھے کاغذ کے آنے کے بعد حالات بہتر ہوں گے۔ بہرحال یہ نامساعد حالات ہیں لیکن اس کے باوجود انسان دیکھتا ہے کہ تعداد کے لحاظ سے بھی کتابوں کی تعداد بڑھی ہے یعنی مثال کے طور پر فرض کریں کہ گزشتہ سال جو کتابیں چھپی ہیں وہ انقلاب سے پہلے کے کئی برسوں میں چھپنے والی کتابوں سے زیادہ ہیں۔ یہ بہت اہم بات ہے۔
اتنی زیادہ اقتصادی اور دیگر مشکلات ہیں لیکن اس کے باوجود تعداد کے لحاظ سے کتابوں کی طباعت بڑھی ہے۔ البتہ چھپنے والی کتابوں کی تعداد زیادہ نہیں ہے، بلکہ بعض کی تعداد کم ہے لیکن ایڈیشن کی تعداد بڑھی ہے بعض کتابیں دس بار پندرہ بار، بیس بار اور بعض تیس بار چھپ چکی ہیں۔
ایک کتاب کے لئے مجھے یہیں بتایا، پتہ نہیں کون سی کتاب تھی، بتایا کہ یہ کتاب تقریبا دوسو بار چھپ چکی ہے۔ اگر ہر بار 1000 نسخے چھپے تو بھی تعداد اچھی ہے۔ بنابریں یہ خوش آیند ہے۔
کتاب کا مسئلہ بہت اہم۔ ملک کی ثقافت اور کلچر بنانے کے لئے ہمیشہ کتاب کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگرچہ آج دیگر بہت سے وسائل بھی وجود میں آ گئے ہیں، جیسے سوشل میڈیا وغیرہ ہے لیکن کتاب اب بھی اپنی جگہ بہت اہم اور بہت اعلی درجہ رکھتی ہے۔
سبھی ادبی، ابلاغیاتی اور فن و ہنر کی سرگرمیاں، جیسے تھیئیٹر، سنیما، عرض کروں کہ حتی مصوری اور صوتی اور بصری پروڈکٹ تیار کرنے کے لئے بھی کتاب کی ضرورت ہوتی ہے۔ یعنی ابلاغیاتی اور فن و ہنر سے متعلق اچھا کام وہی کر سکتا ہے جو کتابوں سے سروکار رکھتا ہو۔ لہذا اگرچہ میں ہمیشہ، سبھی لوگوں سے بالخصوض نوجوانوں سے کتاب پڑھنے کی سفارش کرتا ہوں لیکن آج جو لوگ ریڈیواور ٹیلی ویژن کے لئے پروگرام تیار کر تے ہیں، یا جرائد کے لئے کام کرتے ہیں، جو لوگ آرٹ اور کسی بھی شکل میں صوتی و بصری آرٹ سے جڑے ہوئے ہیں، ان کے لئے میری تاکید ہے کہ کتاب زیادہ پڑھیں۔ اور الحمد للہ آج سبھی موضوعات پر کتابیں موجود ہیں اور یہ کتابیں ملک کے اندر لکھی جا رہی ہیں۔
ایک مسئلہ یہ ہے اور ایک مسئلہ ترجمہ ہے۔ ماضی بعید میں جو ہماری نوجوانی کا زمانہ تھا، زیادہ تر کتابیں ترجمہ شدہ تھیں، یعنی یہاں زیادہ تر غیر ملکی کتابوں کا ترجمہ چھپتا تھا۔ آج نظر آ رہا ہے کہ ملک کے اندر موجود کتابوں کا بڑا حصہ ملک کے اندر لکھی اور تالیف کی جانے والی کتابوں پر مشتمل ہے۔ ان کا ترجمہ ہونا چاہئے۔
یعنی میں غیر ملکی کتابوں کا ترجمہ کئے جانے کا مخالف نہیں ہوں لیکن اچھا ہونا چاہئے۔ ان کو جو جہت اور رخ دیا جائے وہ صحیح ہونا چاہئے، گمراہ کن نہیں ہونا چاہئے۔ لیکن ملک کے اندر لکھی جانے والی کتابوں کا غیر ملکی زبانوں میں ترجمہ کئے جانے کی تاکید بھی ہونی چاہئے اور مترجم جس زبان میں ترجمہ کرے، حتی المقدور وہ اس کی مادری زبان ہونی چاہئے۔ مثال کے طور پر اگر کسی فارسی کتاب کا ترجمہ عربی میں کرنا چاہیں تو یہ ترجمہ ایک عرب کو جس کی مادری زبان عربی ہو، کرنا چاہئے اور انگریزی میں اس کو ترجمہ کرنا چاہئے جس کی مادری زبان انگریزی ہو۔ اسی طرح دوسری زبانوں میں بھی مترجم اس کو ہونا چاہئے جس کی وہ مادری زبان ہو۔
الگ الگ عمر کے بچوں کی کتاب کے سلسلے میں بھی میں تاکید کرنا چاہتا ہوں۔ خوشی کی بات ہے کہ میں نے چند اسٹالوں میں دیکھا کہ اس شعبے میں کام ہوا ہے، پھر بھی میری تاکید ہے کہ مختلف عمر کے بچوں کے لئے جہاں تک ممکن ہو کتابیں تیار کریں اور اس سلسلے میں ہمیں اغیار کی کتابوں سے بے نیاز کریں۔ تاکہ ہم ان شاء اللہ اپنی ثقافت، اپنی جہت اور اپنے اہداف کے ساتھ کتابیں اپنے بچوں کو دے سکیں۔ یہ بھی ایک مسئلہ ہے۔
نشر و اشاعت کا مسئلہ بھی اہم مسائل میں ہے۔ یہاں بعض احباب نے گفتگو کے دوران مجھے نشر و اشاعت کے تعلق سے اچھی اطلاع دی ہے۔ پھر بھی میری تاکید ہے کہ چونکہ کتابوں کے مطالعے کا انحصار بہت حد تک اشاعت پر ہے، اس لئے تحریر اچھی، سلیس اور آسان ہونی چاہئے۔
بہرحال کتب میلہ بہت اچھا ہے۔ الحمد للہ آج ہم نے یہاں جو چند گھنٹے گزارے، اس سے دلی خوشی حاصل ہوئی، یہاں انسان بہت خوش آیند چیزوں کا مشاہدہ کرتا ہے، نمائش میں اچھی ہمت، اچھے نوجوانوں کی اچھی صلاحیت اور الحمد للہ اچھے محرکات دیکھنے کو ملتے ہیں۔
آئی آر آئی بی نامہ نگار: شکریہ! جناب عالی سے ایک اور سوال میرا یہ تھا کہ آپ نے فرمایا کہ صبح ساڑھے آٹھ بجے سے ساڑھے گیارہ بجے تک آپ نے کتب میلے کا معائنہ کیا، کتابوں اور ان کے مطالعے میں آپ کی دلچسپی کی وجہ کیا ہے اور آپ خصوصیت کے ساتھ کن کتابوں کا مطالعہ کرتے ہیں، کون سی کتابیں آپ کو پسند ہیں اور نوجوانوں کو کن کتابوں کے مطالعے کی سفارش کریں گے؟
میں ہر طرح کی کتابیں پڑھتا ہوں۔ اب یہ کہ یہ کہاں سے شروع ہوا، اس کی ایک تاریخ ہے۔ یہ کوئی خاص اہم بات نہیں ہے۔ لیکن ہاں، میں ہر طرح کی کتابیں پڑھتا ہوں۔ کتاب زیادہ پڑھتا ہوں، فنی اور مہارت والی کتابیں پڑھتا ہوں، علمی کتابیں پڑھتا ہوں، ناول پڑھتا ہوں، خاص طور پر یاد داشتیں، دفاع مقدس اور دفاع حرم اہل بیت سے متعلق یاد داشت کی کتابیں جو چھپتی ہیں، یہ بہت اہم کتابیں ہیں۔ یہ ایک طرح سے کتاب نویسی کی نئی قسم ہے جس نے الحمد للہ اچھا رواج پا لیا ہے اور اس میدان میں خواتین زیادہ سرگرم ہیں۔ بہت سی مصنف خواتین بہت اچھا لکھ رہی ہیں، میں ان کی کتابیں زیادہ پڑھتا ہوں۔
آئی آر آئی بی نامہ نگار: بہت شکر گزار ہوں، آپ نے مہربانی کی۔